Monday 8 June 2020

حجاج بن یوسف کون تھا

پاکستان ٹائمز نیوز کے چاہنے والے تمام دوستوں کو اسلام وعلیکم
حضرت سعید بن زبیر جو کہ ایک تابی بزرگ تھے انھوں نے ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے کہ حجاج ایک ظالم شخص ہے ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ زبیر میرے بارے میں ایسا گمان رکھے ہوئے ہے اس نے آپ کو دربار میں بلایا اور پوچھا، کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں ۔ اس پر زبیر نے کہا کہ جی بالکل تم ایک ظالم شخص ہو۔

یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اور اس نے زبیر کو شہید کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔  جب سپاہی زبیر کو شہید کرنے کے لیے دربار سے باہر لے جانے لگے تو زبیر مسکرانے لگے۔  حجاج بن یوسف کو یہ بات نا گہوار گزری اور اس نے اس سے پوچھا کہ کیوں مسکرا رہے ہو، جس پر زبیر نے جواب دیا کہ میں تیری بیوقوفی پر مسکرا رہا ہوں اور جو اللہ تعالیٰ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اس پر مسکرا رہا ہوں۔ اس پر حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے ہی زبح کر دو۔
جب خنجر گلے پر رکھا گیا، تو زبیر نے اپنا رکھ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا اے اللہ میرا چہرہ تیری طرف ہے اور میں تیری رضا پر راضی ہوں۔  یہ حجاج بن یوسف نہ تو موت کا مالک ہے نا تو زندگی کا۔
جب حجاج بن یوسف نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف سے موڑ دو۔ جب قبلہ سے اس کا چہرہ پلٹایا گیا تو زبیر نے فرمایا “یا اللہ تو جدھر بھی ہو ہر طرف موجود ہے۔  مشرق اور مغرب ہر طرف تیری ہی حکمرانی ہے،میری دعا ہے کہ میرا قتل اس ظالم حجاج کا آخری جرم ہو۔ اے میرے خدا میرے بعد اس کو کسی پر مسلط نا کرنا”۔





خواتین و حضرات جب زبیر کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا تو اس کے ساتھ ہی اسے شہید کر دیا گیا۔ اور اتنا خون نکلا کہ حجاج کا دربار تر ہو گیا۔ وہاں پر موجود ایک دنا آدمی بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوئی خوشی سے مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا۔
ناظرین کرام حجاج بن یوسف کے نام سے سب واقف ہیں حجاج کو عبدالمالک نے  مکہ ،مدینہ ،طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا۔ اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے ایراق بھیج دیا گیا۔ جہاں سے حجاج قوفہ میں داخل ہوا۔ ان علاقں میں حجاج کا 20 سال تک عمل داخل رہا۔ اور اس نے قوفہ میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں۔ اس کے دور میں مسلمان مجاہدین چین تک پہنچ گئے تھے۔ بلکہ دوستوں آپ کو یہ سن کر شہید حیرانی ہو گی کہ حجاج بن یوسف ہی وہ شخص تھا جس نے قرآن پاک پر اراب لگوائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑی فصاحت اور بلوغت و شجاعت سے نوازہ تھا۔ حجاج حافظ قرآن بھی تھا شراب نوشی اور بدکاری سے بھی بچتا تھا وہ جہاد کا دھنی اور فصوحات کا ہریص تھا۔ مگر اس کی تمام اچھائیوں پر ایک ہی برائی بھاری تھی۔ اور وہ برائی تھی ظلم

حجاج
 کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں  80 ، 80 ہزار قیدی قید ہوتے تھے۔  جن میں 20 ہزار کے قریب عورتیں بھی ہوتی تھیں۔ اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہدو پارسا انسان حضرت سعید بن زبیر (رضی) کا قتل تھا۔حجاج بن یوسف 
بہت ظالم شخص تھا اس نے اپنی زندگی میں ایک خون خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا۔ ایک طرف موسیٰ بن عسیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے اور دوسری طرف حجاج خود اللہ کے بندوں اور اولیاء وعلما کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق حجاج نے 1 لاکھ 20000 انسانوں کا قتل کیا تھا۔
ناظرین بیان ہوتا ہے کہ زبیر کو شہید کرنے کے بعد حجاج پر وہشت سوار ہو گئی تھی۔ اور وہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ حجاج جب بھی سوتا حضرت سیعد بن زبیر اس کے خواب میں آتے اور اس کا دامن پکڑ کر کہتے اے دشمن خدا تونے مجھے کیوں قتل کیا۔ میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا۔ جواب میں حجاج کہتا، کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حجاج کو ایک مہلک بیماری بھی لگ گئی۔ اس بیماری میں سخت سردی کلیجہ سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا گئی۔ وہ کانپتا تھا اور آگ سے بھری انگھیٹیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں۔ اور اس قدر اس کے قریب رکھی جاتیں تھیں کہ اس کی کھال جل جاتی مگر اس ظالم حجاج کو احساس تک نہ ہوتا۔
حکیموں طبیبوں کو دکھانے کے بعد معلوم ہوا کے اس کے پیٹ میں سرطان ہے۔ ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے گلے میں اتار دیا۔ تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا گیا اور گوشت کے ٹکڑکے کے ساتھ بہت ہی عجیب قسم کے کیڑے چپکے ہوئے تھے اور اتنی بدبو تھی کہ پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر دربارری اٹھ کر بھاگ گئے اور حکیم بھی بھاگنے لگے۔ حجاج حکیم سے بولا کہ تو کدھر جاتا ہے میرا علاج تو پورا کر جس پر حکیم بولا کہ تیری بیماری زمینی نہی ہے بلکہ آسمانی ہے تو اللہ سے پناہ مانگ۔




خواتین و حضرات جب حجاج مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا، تو اس نے حسن بصری (رحمۃ) کو بلوایا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے کہ میں تجھے منع کیا تھا کہ اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ان پر ظلم نا کرنا مگر تو باز نا آیا۔
دوستوں حجاج بن یوسف عبرت کا سبب بنا ہوا تھا۔ وہ اندر باہر سے بری طرح جل رہا تھا۔ اور بلکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ حضرت موسیٰ بن زبیر کی وفات کے 40 دن بعد حجاج بن یوسف کی بھی موت ہو گئی تھی۔ جب حجاج  نے دیکھا کے اب میرے بچنے کا امکان نہی ہے تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو کہ بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے وہ بولا “میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہوتے ہی میری قبر کا نشان بھی مٹادینا کیونکہ لوگ مجھے مرنے کے بعد میری قبر میں بھی نہی چھوڑے گے” ۔
اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا تو اس کی عبرت ناک موت واقع ہوئی۔
ناظرین اللہ تعالیٰ ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے لیکن  جب ظالم سے انصاف لیتا ہے تو فرشتے بھی خشیت الہی سے تھر تھر کانپتے ہیں اور عرش سے لے کر فرش بھی ہل جاتا ہے۔ اور آخری میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کے ظلم سے ہم سب کو بچائے آمیں۔
ناظرین امید کرتے ہیں آپکو آج کی یہ کاوش بہت پسند آئی ہو گی وڈیو پسند آنے کی صورت میں اسے لائک اور دوستوں کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے  اپنی قیمتی رائے سے ہیں ضرور آگا کریں ہماری اگلی وڈیوں آنے تک اپنا اور اپنے پیاروں کا بہت سارا خیال رکھیں
اللہ حافظ

0 comments:

Post a Comment

Site Search